گزشتہ ہفتے کا دیپالپور کیسا رہا،دیپالپور کی ڈائری

گزشتہ ہفتے کا دیپالپور خاصا سنگین رہا جس میں پیش آنیوالے حادثات نے ہرایک کو دکھی کردیا خاص طور پر قصور روڈ پر اڈہ صالحووال کے قریب فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس حادثے کے بارے میں سن کر ہرکوئی اشکبار تھا یہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ لاہور کے ایک ہسپتال میں کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد امتیاز نامی نوجوان کی والدہ انتقال کر گئیں جس کی میت لے کر امتیا ز اپنی بہنوں اور دیگر عزیزوں کیساتھ اپنے شہر بہاولپور جارہاتھا یہ سب لوگ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں سوار ہوکر قصور روڈ پر رواں دواں تھے میں تصور میں جاکر اس منظر اور یہاں موجود لوگوں کے جذبات کو سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کیوں کہ میں خود اس صورتحال سے گزرچکاہوں جب بارہ سال قبل ایک عزیز کی نعش کیساتھ اس کے گھر گیا تھااور اس دوران ہماری جو کیفیت رہی تھی وہ میں ہی جانتا ہوں اور اس ایمبولینس میں تو پھر بھی ایک ماں کی نعش تھی بہرحال جب یہ ایمبولینس جب دیپالپور کے نواحی علاقے اڈہ صالحوال پہنچی تو یہاں پر ایک بلڈنگ زیرتعمیر تھی جس کیلئے ایک ٹریکٹر ٹرالر سریا اور لوہا وغیرہ اتارنے آیا ہوا اور عین اس وقت جب ایمبولینس اس عمارت کے پاس پہنچی ٹھیک اسی وقت نااہل ڈرائیورٹرالر سڑک پر لے آیا اورایمبولینس اس کیساتھ ٹکرا گئی اور یہ انتہائی اندوہناک حادثہ پیش آگیاجس کے نتیجے میں ایمبولینس میں موجود نصرت بی بی،شاہدہ بی بی،فوزیہ بی بی اورفیاض احمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ایمبولینس کے ڈرائیورمحمدعرفان کوشدید زخمی حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال اوکاڑہ پہنچایا گیا تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بھی چل بسا۔ابھی اس خبر کاافسوس تھا کہ کہ بصیرپور کی سہاگ نہر سے دونوجوانوں کی نعشیں ملنے کی دلخراش خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی جنہیں ریسکیو1122کے عملہ نے نہر سے نکالا دونوں نوجوانوں کی عمریں بیس سے بائیس سال کے مابین لگ رہی تھیں اور کافی دیر پانی میں رہنے کے بعد ان کی نعشیں گل سڑ چکی تھیں بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ شیرگڑھ روڈ پر ایک اورحادثہ اس وقت رونماہوگیا جب ایک مسافر وین ٹرک سے جاٹکرائی اس ایکسیڈنٹ نے ایک زندگی کا چراغ موقع پر ہی گل کردیا جبکہ پانچ افراد شدید زخمی ہوگئے جن کو ڈی ایچ کیو ہسپتال اوکاڑہ میں منتقل کردیا گیا ۔اس کے علاوہ دیپالپور میں ہی حویلی لکھا روڈ پر باہری پور کے نزدیک 
موٹرسائیکل کی کار سے خوفناک ٹکر ہوئی جس میں موٹرسائیکل پر سوار دونوں بھائی نوید اور عرفان شدید زخمی ہوگئے جن کو فوری طور پر ٹی ایچ کیو ہسپتال دیپالپورمنتقل کیا گیا تاہم ان کی نازک حالت کے باعث انہیں لاہور ریفرکرنا پڑا ۔اس کیساتھ دیپالپور میں انجمن پٹواریاں و گرداوران کے زیراہتمام تحصیل بھر کے پٹواریوں کا احتجاج بھی قابل ذکرہے اس احتجاجی ریلی میں بارایسوسی ایشن دیپالپور،سٹیمپ وینڈرز ایسوسی ایشن،نمبرداران،چوکیداران اور ایپکاکے عہدہداران نے بھی انجمن پٹواریان کیساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریلی میں شرکت کی اور موقع پر اپنے خطاب کرتے ہوئے سینئر نائب صدر انجمن پٹواریان و گرداوران نوید ثقلین،جنرل سیکرٹری محمد سلیم،میاں بلال عمر بودلہ،میاں غلام محمد وٹو ٹھکرکا اورمیاں اظہروٹو نے کہا کہ ملک و ملت کیلئے پٹواری کی خدمات لائق تحسین ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات سے نوازا جاتا مگر افسوس حکومت کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی آڑ میں پٹواریوں کی حق تلفی کررہی ہے اور دوماہ کے ہمارے پرامن احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی گئی جس کے بعد مجبوراََ ہمیں سڑکوں پر نکلنا پڑا ہے نوید ثقلین نے بتایاکہ 29 اگست کو ساہیوال ڈویژن کے سارے پٹواری احتجاجی ریلی نکالیں گے اور اس موقع پر ایک سیمینار کا انعقاد بھی کیاجارہاہے جس میں پٹوارسسٹم اور جدید کمپیوٹرائزڈ لینڈریکارڈ کا تقابلی جائزہ لیاجائیگا۔ ان اہم خبروں کیساتھ اگر دیپالپور پریس کلب و انجمن صحافیاں کی جانب سے منعقد ہونیوالی دو تقاریب کا ذکر نہ کیاجائے تو زیادتی ہوگی ان میں سے ایک تقریب نصرت فتح علی خان مرحوم کی یاد میں منعقد کی گئی جس میں معززین علاقہ کے سامنے دیپالپور آرٹس کونسل کے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا س موقع پر شرکاء کا کہنا تھا کہ نصرت فتح علی خان پوری دنیا میں پاکستان کے سفیر تھے جنہوں نے اپنے فن سے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا پروگرام میں استاد شجاعت علی خان ضیائی اور ان کے شاگرد محمدعرفان نے خوبصورت آواز میں نصرت فتح علی خان کے گیت بھی گائے جن کو بہت سراہا گیا اسی طرح دوسرا پروگرام ارشد علی عرف اچھی خان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منعقد کیا گیا اس پروگرام کی ضرورت بھی تھی کہ کیوں کہ ارشد علی راجیش ایک ایسا فنکار ہے جس نے تیس سال سے دیپالپور کی عوام کو اپنے فن کا گرویدہ کئے رکھا ہے اچھی خان کی شہرت اگرچہ ایک مزاحیہ فنکار کے طور پر ہے مگر حقیقت میں اس کے اندر پروڈیوسر،ہدائتکار اور رائیٹر کی صورت میں ایک بڑا فنکار چھپاہوا ہے جو اگر کسی بڑے شہر میں ہوتا تو یقیناًعزت و شہرت کیساتھ ساتھ دولت کی دیوی بھی اس پر مہربان ہوتی مگر وسائل کی عدم دستابی کہیئے یازمانے کی قدرناشناسی کہ یہ بڑا فنکار دیپالپور کی گلیوں کا ہی ہوکررہ گیا مگر مجھے بہت خوشی ہوئی جب برادرم ملک فیاض حسن اعوان نے اس تقریب کی ایک جھلک فیس بک لائیو پر چلا دی اور شائد یہی کلپ ہی اس پروگرام کی جان بھی تھا جس میں فقیر انہ روپ دھارے ایک شخص ایک گیت''یار بناکے لُٹ لیندے نے کیہہ لینا اے یاراں تو''پر خوبصورت پرفارمنس دے رہاتھا میں اس پروگرام کے انعقاد پر دیپالپور پریس کلب و انجمن صحافیاں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتاہوں کیوں کہ مرنے کے بعد تو سب ہی یاد کرتے ہیں مگر فنکار کو اگر اس کی زندگی میں ہی اس طرح کے tributesپیش کئے جاتے رہیں تو اس کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے۔محلہ مبارک علی چنڈور کو نوجوان چوہدری عمرزمان چنڈور کا پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کیلئے سلیکٹ ہونا بھی اہل دیپالپور کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں اللہ اس نوجوان کو پاکستان کانام پوری دنیا میں بلند کرنے ہمت و توفیق دے ۔جاتے جاتے اللہ سے دعا ہے کہ دیپالپور کا آئندہ ہفتہ اہل دیپالپور کیلئے اچھی خبریں لائے ۔
Previous
Next Post »